This one is a rebrand: Henceforth, Twitter isn’t Twitter anymore; it shall be known simply as “X.”

 حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب جب حج پہ گئے

تو راستے میں وادیِ حمرا میں قیام کیا چونکہ سفر میں تهے اسلئے نمازِ عصر کی سنتیں غیر موکدہ ادا نہ کیں (جو کہ اک شریعی حکم ہے) دریں اثناء نیند نے غلبہ کیا اور سو گئے خواب میں آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی آپ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے مہر علی میرے دیدار کے طلبگار ہو کہ میری ہی سنتیں ادا نہ کیں. مہر علی خوشی اور گهبراہٹ کے ملے جلے احساس سے بیدار ہوئے چونکہ ابهی ابهی دیدارِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ و سلم ہو تها تو اس مستی میں یہ اشعار کہے 

_

اَج سک متراں دی ودھیری اے

کیوں دلڑی اداس گھنیری اے

لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

_

اَلْطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہ

والشَّذُو بَدیٰ مِنْ وَفْرَتَہ

_

فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہ

نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں

_

مکھ چند بدر شعشانی اے

متھے چمکے لاٹ نورانی اے

_

کالی زلف تے اکھ مستانی اے

مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں

_

دو ابرو قوس مثال دسن

جیں توں نوک مژہ دے تیر چھٹن

_

لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن

چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں

_

اس صورت نوں میں جان آکھاں

جانان کہ جانِ جہان آکھاں

_

سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں

جس شان تو شاناں سب بنیاں

_

ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں

بے صورت ظاہر صورت تھیں

_

بے رنگ دسے اس مورت تھیں

وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں

_

دسے صورت راہ بے صورت دا

توبہ راہ کی عین حقیقت دا

_

پر کم نہیں بے سوجھت دا

کوئی ورلیاں موتی لے تریاں

_

ایہا صورت شالا پیش نظر

رہے وقت نزع تے روزِ حشر

_

وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر

سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں

_

یُعْطِیُکَ رَبُّکَ داس تساں

فَتَرْضیٰ تھیں پوری آس اساں

لج پال کریسی پاس اساں

والشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں

_

پهر جب روضہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ و سلم پہ پہنچے تو یہ اشعار پڑهے

_

لاہو مکھ تو بردِ یمن

منبھانوری جھلک دکھلاؤ سجن

_

اوہا مٹھیاں گالیں الاؤ مٹھن

جو حمرا وادی سن کریاں

_

حجرے توں مسجد آؤ ڈھولن

نوری جھات دے کارن سارے سکن

_

دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن

سب انس و ملک حوراں پریاں

_

انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے

لکھ واری صدقے جاندیاں تے

_

انہاں بردیاں مفت وکاندیاں تے

شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں

_

پیر مہر علی کو پهر جب جاگتے ہوئے روضہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ و سلم پر دوبارہ زیارت ہوئی تو یہ اشعار پڑھے

_

سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ

مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ

_

کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

مشتاق  اکھیںاں کتھے جا اڑیاں

_

" پیر سیدمہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ گولڑہ شریف"

شکاری

 ایک چڑی اور چڑا شاخ پر بیٹھے تھے

 دُور سے ایک انسان آتا دیکھائی دیا۔ چڑی نے چڑے سے کہا کہ اُڑ جاتے ہیں یہ ھمیں مار دے گا۔

چڑا کہنے لگا کہ بھلی لوک دیکھو ذرا اسکی دستار پہناؤا شکل سے شرافت ٹپک رھی ھے یہ ھمیں کیوں مارے گا۔

جب وہ قریب پہنچا تو تیر کمان نکالی اور چڑا مار دیا


 ‏

 چڑی فریاد لےکر بادشاہ وقت کے پاس حاضر ھو گئی۔


شکاری کو طلب کیا گیا۔ شکاری نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ بادشاہ نے چڑی کو سزا کا اختیار دیا کہ جو چایے سزا دے۔


چڑی نے کہا کہ اسکو بول دیا جاۓ کہ!!

اگر یہ شکاری ھے تو لباس شکاریوں والا پہنے۔


شرافت کا لبادہ اتار دے---

(مولانا رومی)


سیرت النبی ﷺ

 عنوان: زم زم کی کھدائی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ١۲ بیٹے تھے - ان کی نسل اسقدر ہوئی کے مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی - ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے - عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا - نزار کے چار بیٹے تھے - ان میں سے ایک کا نام مضر تھا - مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے" یہ فہر بن مالک بھی کہلائے - قریش کی اولاد بہت ہوئی - ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی - ان کی اولاد سے قصیّ نے اقتدار حاصل کیا - قصیّ کے آگے تین بیٹے ہوئے - ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے - 
ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی " ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا " اس کا نام شیبہ رکھا گیا - یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا- ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے - ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا " جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے - اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے - مطلّب نے لوگوں کو بتایا " یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے " اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا - اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا - انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب حمزہ, عبّاس, عبداللہ, ابولہب, حارث, زبیر, ضرار, اور عبدالرحمن پیدا ہوئے- ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے - عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا " یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو, اس کنویں کو قبیلہ 
جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا - قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے " بیت اللہ کے نگراں تھے - انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی - ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا " وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا " جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا- اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانۂ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈالدیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا - کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا-
اب اس کا نام و نشان مٹ گیا - مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا " بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گذرا - کنواں بند رہا یہاں تک کے قصیّ کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا" انہوں نے خواب دیکھا " خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا :- 
" میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا - اس نے مجھ سے کہا "طیبہ کو کھودو "
میں نے اس پوچھا "طیبہ کیا ہے؟" 
مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا - دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا " کہنے لگا "برہ کو کھودو "
میں نے پوچھا "برّہ کیا ہے" وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا-
تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا - اُس نے کہا " مضنونہ کھودو " 
میں نے پوچھا " مضنونہ کیا ہے؟" وہ بتائے بغیر چلا گیا - 
اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا "زم زم کھودو " میں نے اس سے پوچھا "زم زم کیا ہے؟ " اس بار اس نے کہا:
" زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا, جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے " 
عبدالمطلب کہتے ہیں, میں نے اس سے پوچھا 
"یہ کنواں کس جگہ ہے؟ " 
اس نے بتایا - 
"جہاں گندگی اور خون پڑا ہے, اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے" 
دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے - اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا - انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا, اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کئیے جانے والے جانوروں کا تھا, پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لئیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے -انہوں نے کہا :
" اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے, تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لئیے قربانیاں کرتے ہیں- "
عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا : 
"تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو, میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئیے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا- "
قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے - آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی - جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے - یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے
" یہ دیکھو یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے "
جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے : 
"عبدالمطلب اللہ کی قسم " یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے" اس لئیے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے -"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا : 
" میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا " یہ مجھ اکیلے کا کام ہے"
اس پر قریش نے کہا :
" تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے"
عبدالمطلب بولے :
" کسی سے فیصلہ کروالو "
انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا - یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی - آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے - عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی - 
جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی - اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا , وہاں کہیں پانی نہیں تھا - اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا - سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے, یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا - انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا - اب انہوں نےادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا - 
عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے, جوں ہی ان کی سواری اٹھی, اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا - انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا - پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے - سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے - اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:"آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو -" اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا - پانی پینے کے بعد وہ بولے:
" اللہ کی قسم.... اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا - اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے - جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گا، اس لیے یہیں سے واپس چلو -" 
اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے - 
واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی - ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں - اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی - یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا - انہوں نے عبدالمطلب سے کہا :
"عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے -" 
ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا :
"نہیں! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے - آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں -" 
انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا - دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے.... پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے - اس طرح فیصلہ ہوگیا - عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا - 
زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا - اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا - 
"اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو -"

سیرت النبی ﷺ

عنوان: ماہِ نبوت طلوع ہوا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آنول نال کٹی ہوئی تھی۔{آنول نال کو بچے پیدا ہونے کے بعد دایہ کاٹتی ہے۔}
آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے۔عبدالمطلب یہ دیکھ کر بےحد حیران ہوئے اور خوش بھی۔وہ کہا کرتے تھے، میرا بیٹا نرالی شان کا ہوگا۔{الہدایہ}
آپ کی پیدائش سے پہلے مکّہ کے لوگ خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔لیکن جونہی آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت قریب آیا۔بارشیں شروع ہوگئیں، خشک سالی دور ہوگئی۔درخت ہرے بھرے ہوگئے اور پھلوں سے لد گئے۔زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔
پیدائش کے وقت آپ اپنے ہاتھوں پر جھکے ہوئے تھے۔سر آسمان کی طرف تھا۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ سجدے کی سی حالت میں تھے۔{طبقات}
آپ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔جیسا کہ ہم نماز میں اٹھاتے ہیں۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"جب میری والدہ نے مجھے جنم دیا تو ان سے ایک نور نکلا۔اس نور سے شام کے محلات جگمگا اٹھے۔" ( طبقات )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں:
"محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی پیدائش کے وقت ظاہر ہونے والے نور کی روشنی میں مجھے بصری میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں تک نظر آئیں۔"
علامہ سہلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے اللہ کی تعریف کی۔ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا ۔
"اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اللہ تعالیٰ کی بےحد تعریف ہے اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔"
آپ کی ولادت کس دن ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ پیر کا دن تھا۔آپ صبح فجر طلوع ہونے کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔
تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بہت سے قول ہیں۔ایک روایت کے مطابق آپ 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھا اور دن پیر کا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو پیر کے دن ہی نبوت ملی۔پیر کے روز ہی آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے روز ہی آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔
آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔یعنی ہاتھیوں والے سال میں۔اس سال کو ہاتھیوں والا سال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔
آپ کی پیدائش اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد ہوئی تھی - 

لالچ بری بلا ہے

شہد کا ایک قطره زمین پر گر گیا. ایک چھوٹی سی چیونٹی آئی اور اُس نے اس شہد کے قطرے سے تھوڑا سا چکھا۔ اُسے بڑا مزا آیا۔
اسے کام سے جانا تھا تو جب وہ جانے لگی تو اس شہد کا مزہ اس کے منہ میں مزید پانی لانے کا سبب بنا، اُس کا منہ بھر آیا:
کیا زبردست اور مزے دارشہد ہے۔
کتنا میٹھا!
آج تک ایسا شہد نہیں کھایا!!
وہ لوٹی اور شہد میں سے تھوڑا سا اور چکھ لیا...
اس نے دوبارہ جانے کا عزم کیا مگر اُس نے محسوس کیا کہ یہ تھوڑا سا شہد کھانا کافی نہیں ہے، اُسے اور کھانا چاھئے۔
وہ رکی اور اس مرتبہ کھانے کے بجائے شہد پر گر پڑی تا کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرلے!
وہ چیونٹی شہد میں غوطہ زن ہو گئی اور لطف اندوز ہونے لگی۔
مگر افسوس کہ وہ شہد سے باہر نہ نکل سکی۔
شہد کی چکنائی کی وجہ سے اس کے پیر زمین سے چپک گئے تھے اور اس میں انہیں ہلانے کی طاقت نہ رہی...!
وہ شہد میں رہ گئی یہاں تک کہ وہ اسی میں ہی مر گئی !
اس کی لذت اندوزی نے شہد کو ہی اس کی قبر میں تبدیل کر دیا!
ایک دانا کا قول ھے:
دنیا شہد کے ایک بہت بڑے قطرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے!
پس جو بھی اس قطرہ شہد میں سے تھوڑا اور بقدر کفایت کھانے پر اکتفاء کرے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو بھی اس شیرینی میں غوطہ زن ہو گا ہلاکت اس کا مقدر بن جائے گی ۔ ۔

This one is a rebrand: Henceforth, Twitter isn’t Twitter anymore; it shall be known simply as “X.”